بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || ٹام باراک، شام کے لئے امریکہ کے خصوصی ایلچی ہیں جنہوں نے نیشنل میگزین کے ساتھ ایک انٹرویو میں اعلان کیا کہ واشنگٹن نے گذشتہ سالوں میں دو بار ایران کے نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن ان اقدامات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
بارک کا کہنا تھا کہ ایران سے متعلق موجود امریکی پالیسی نظام کی تبدیلی پر مرکوز نہیں ہے اور اختلافات کو علاقائی گفتگو کے ذریعے حل کیا جانا چاہئے۔ یہ بیانات اس وقت سامنے آ رہے ہیں جب ٹرمپ نے پہلے ہی ایران کے خلاف اسرائیل کے حملوں کی منصوبہ بندی اور کمان میں اپنے کردار کی توثیق کر دی ہے۔
واشنگٹن کی غیر تحریری حکمت عملی: نظام کی تبدیلی کے لئے دباؤ جاری رکھنا
امریکی ماہر بشریات اور ـ مشرق وسطیٰ اور اسلامی دنیا کے ماہر اور ـ مینیسوٹا یونیورسٹی کے پروفیسر ولیم بیمین (William O. Beeman)، نے ابنا خبر ایجنسی سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے میں ان بیانات کا بغور جائزہ لینے پر زور دیا کہ ایران کے سلسلے میں واشنگٹن کی پالیسی عملی طور پر تبدیل نہیں ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ معاشی دباؤ، پابندیاں لگانے، تنہا کرنے اور نظام کو تبدیل کرنے کے مقصد سے سماجی بے اطمینانی پیدا کرنے، کی امریکی حکمت عملی جارج بش کی حکومت سے اب تک جاری ہے اور اب بھی قدامت پسند اور بااثر امریکی تھنک ٹینکوں میں مقبول ہے؛ گوکہ یہ حکمت عملی کبھی کامیاب نہیں ہوئی اور اس کے نفاذ کے لئے تمام تر اقدامات بری طرح ناکام ہوئے۔
ٹرمپ کے مد نظر "مذاکرات" جو "بلیک میلنگ" سے زیادہ ملتے جلتے ہیں
بیمین نے کہا: "ایران کے ساتھ مبینہ 'حقیقی مذاکرات' کے لئے ٹرمپ کی آمادگی کے بارے میں ٹام بارک کے دعوے ایک سیاسی چال کے زمرے میں آتے ہیں۔"
بیمین نے کہا: "ٹرمپ کا نقطہ نظر دباؤ اور دھونس پر مبنی ہے اور وہ ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کی مکمل بندش، تنصیبات کے خاتمے، سپاہ پاسداران کے خاتمے اور مقاومتی تحریکوں کی حمایت بند کرنے جیسے اقدامات کو مذاکرات کی ابتدائی شرط سمجھتے ہیں! ایسی شرائط جن کا مطلب مذاکرات نہیں ہے بلکہ یہ [شرائط] براہ راست نظام کی تبدیلی پر منتج ہوتی ہیں۔"
نظام کی تبدیلی کے منصوبوں میں امریکہ کی بار بار ناکامیاں
پروفیسر بیمین نے عراق اور افغانستان کی مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "'نظام تبدیل کرنے کے لئے لوگوں کی زندگیاں اُجاڑنے' کی حکمت عملی کبھی بھی کارگر ثابت نہیں ہوئی ہے۔"
انھوں نے زور دے کر کہا: "سرکاری اعلان نہ ہونے کے باوجود، ایران کی حکومت تبدیل کرنے کی خواہش امریکہ کی مختلف سیاسی سطحوں پر بدستور موجود ہے؛ یہاں تک کہ بیرون ملک مقیم ایرانیوں کا ایک حصہ بھی اسی امید سے، ٹرمپ کی حمایت کرتا ہے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110
آپ کا تبصرہ